Saturday 9 May 2015

شہید ملت لیاقت علی خان کےقتل کا راز Liaqat ali khan k qatal ka razz

......سیدعارف مصطفیٰ......
بالآخر اس خونی داستان پہ سے پردہ اٹھ ہی گیا کہ جس نے 16 اکتوبر 1951 کو کمپنی باغ راولپنڈی میں جنم لیا تھا اور یہ داستان تھی پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کی کہ جنہیں وہاں جلسے سے خطاب کے دوران گولیاں مار کر شہید کردیا گیاتھا، ابھی حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ کی وہ کلاسیفائڈ دستاویزات جو 50 سال سے زائد پرانی ہونے کی وجہ سے متعلقہ قوانین کی رو سے ڈی کلاسیفائی کردی گئیں ہیں یعنی جنہیں منظر عام پہ لانے کی اجازت مل گئی ہے تو ان سے اس تلخ حقیقت کا انکشاف ہوا ہے کہ مقتول وزیراعظم اس وقت کے امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کے عتاب کا نشانہ بنے تھے کیونکہ انہوں نے ایران کے تیل کے ذخائر کی فروخت کے ٹھیکے دلوانے میں امریکہ کی مدد کرنے سے صاف انکار کردیا تھا اور ساتھ ہی امریکی فضائیہ کے ان طیاروں کو واپس بلوانے کا مطالبہ کردیا تھا کہ جو پاکستان میں اس وقت موجود تھے اور جن سے بظاہر روسی معاملات کی جاسوسی اور مداخلت کا کام لیا جانا تھا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ان دستاویزات سے عیاں ہونے والی یہ خونچکاں حقیقت اپنے اندر بہت کچھ سموئے ہوئے ہے،، اور یہ شاید کچھ نہ کچھ لوگوں کیلئے باعث حیرت بھی ہو لیکن جو لوگ اہل نظر وہ ان حقائق سے پورے طور پہ واقف نہ بھی سہی لیکن ایسی کسی بیرونی سازش کے باعث لیاقت علی کی شہادت ہونے کے بارے میں تقریباً زیادہ تر کا اتفاق تھا ،،، اس سازش پہ عملدرآمد کیلئے بھی وہی روایتی طریقہ کار استعمال کیا گیا کہ واردات کا ارتکاب’’گورا صاحب‘‘ نے اپنے ہاتھوں سے نہیں کیا بلکہ اسی خطے کے لوگ کام میں لائے گئے اور قاتل سید اکبر کو قتل کی واردات کرچکنے کے بعد بھی وہیں مار ڈالنے کا بھی بڑی کامیابی سے انتظام کرلیا گیا تھا اور قاتل سید اکبر کو موقع پہ ہی شوٹ کرڈالنے والے پولیس افسر نجف شاہ کو یوں تو جلدی جلدی بہت ترقیاں دیدی گئیں لیکن جلد ہی پراسرار طور پہ اسے بھی قتل کردیا گیا،،، قتل کی سیریز یہیں پہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اسکے بعد جب اس سانحے کی تحقیقات کیلئے جب مشہور سراغ رساں ادارے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے یہاں بلائی گئی تو وہ یہاں پہنچتے ہی ایک خوناک فضائی حادثےکا شکار ہوگئی جس میں پاکستان کی ایک اہم تحقیقی ایجنسی کے سربراہ اعتزازالدین احمد بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھےتھے۔

اس ہائی پروفائل قتل کی فائل بتدریج کئی مقتولین کے تذکرے سے بھر گئی اور پھر داخل دفتر کردی گئی اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی قتل کی سازش تاریخ کےدھندلکوں میں جیسے کہیں کھوگئی لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ خون کے داغ کبھی نہیں چھپتے ،،،تو اب وہ داغ پھر سے ابھرآئے ہیں ،،، لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے اور بھی کئی وجوہات بیان کی جاتی رہی ہیں جن میں کشمیر میں جنگ جاری رکھنے اور پاکستان کا حصہ بنانے کیلئے انکی خصوصی مالی سپورٹ اور امریکہ کی نسبت بتدریج روس کی جانب ترجیحاتی رویہ کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے اسکے علاوہ عالم اسلام کی جانب بڑھتا ہوا جھکاؤ اور داخلی سطح پہ ملک میں جاگیرداری نظام کے خاتمے کے حق میں انکی پالیسیوں میں متوقع تبدیلیوں کے اندیشے اور اس وجہ سے جاگیردار طبقے میں انکی بڑھتی مخالفت بھی انہیں راستے سے ہٹانے کے اسباب بیان کیئے جاتے ہیں۔

یہ ڈی کلاسیفائڈ دستاویزات درحقیقت ہم اہل وطن کیلئے غوروفکر کرنے اور عالمی سازشوں کو سمجھنے میں بڑی مدد دے سکتی ہیں بشرطیکہ انہیں آئندہ کیلئے اپنی صفوں میں استحکام لانے کیلئے حب وطن اور دردمندی سے پڑھا جائے ،،، کرنال کے اس شہید نوابزادے نے جس وطن کی آزادی اور پھر اس آزادی کی بقاء کیلئے پہلے اپنے مال اور پھر جان تک کی قربانی دیدی اسے خراج تحسین پیش کرنے کا صحیح اور بامقصد طریقہ صرف یہی ہے کہ ہم انکی اس قربانی کو کبھی فراموش نہ کریں اور آئندہ عالمی طاقتوں کی جانب سے اپنے معاملات میں مداخلت کی ہر کوشش و سازش کو ناکام بنادیں۔ 

0 comments:

Post a Comment

Popular Novels