Saturday 9 May 2015

’سیو دی شفقت‘اورسائبرکرائم

.....جویریہ صدیق.....                   
سوشل میڈیا پر اکثر بے تکے ٹرینڈز دیکھنے کو ملتے ہیں ان کو بنانے والوں میں سے اکثر سیاسی جماعتوں کہ پے رول پر ہیں جن کا کام ہی صبح سے شام تک مدمقابل افراد پر کیچڑ اچھالنا ہے۔اس ہر طرح سوشل میڈیا پر ایک اور طبقہ بھی ہے جو ان سے بھی بڑھ کر خطرناک ہے جن کا کام ہر وقت وطن عزیر کو بدنام کرنا ہے۔

اس بار بھی کچھ ایسا ہوا کہ نام نہاد لبرلز کی جانب سے ٹوئٹر پر ایک ٹرینڈ چلا’’ سیو دی شفقت‘‘ ۔شفقت کشمیر سے تعلق رکھنے والا جوان کراچی میں محنت مزدوری کی غرض سے آیا۔اس نے کچھ عرصے بعد ایک معصوم بچے کو اغوا برائے تاوان کے لیے اٹھا لیا اور بعد ازاں قتل کردیا۔اب لبرلز نے یہ شور مچا دیا کہ شفقت تو صرف 14 برس کا تھا، اس پر پولیس نے تشدد کرکے بیان لیا اور ایک 14 سال کے بچے کو سزا کسیے ہوسکتی ہے۔ان کو شروع کرنے والوں نے پاکستان کی عدلیہ پر بھی انگلیاں اٹھائیں ، اکیسویں آئینی ترمیم پر اعتراض کیا اور یہ منظم پروپیگنڈہ شروع ہوگیا کہ پاکستان میں تو سفاک لوگ بستے ہیں جو 14 سال کے بچوں کو بھی پھانسیاں دے رہے ہیں۔شفقت کے بچپن کی ایک تصویر بھی کچھ این جی اوز کے ملازمین اپ لوڈ کرتے رہے اور پاکستان کے خلاف دہایاں دیتے رہے۔عالمی میڈیا اور ممالک بھی پاکستان سے سوال کرنے لگے۔یہاں تک کہ معاملہ اقوام متحدہ بھی تک پہنچ گیا۔سماجی تنظیمیں این جی اوز نے حکومت پر دبائو جاری رکھا اور سوشل میڈیا نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پھانسی سے ٹھیک ایک دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک برتھ سرٹیفکیٹ پھیلا دیا گیا جو کہ ٹائون کمیٹی کیل کشمیرکی طرف سے جاری ہوا جس کے مطابق شفقت حسین کی تاریخ پیدایش یکم اکتوبر1991 ہے۔یہ سرٹیفکیٹ 22 دسمبر 2014 کو جاری ہوا، جب یہ سوال اٹھا یا گیا کہ1991 میں پیدا ہونے والے بچے کا سرٹیفکیٹ 2014 میں کیوں جاری ہوا تو شفقت کے ساتھ کھڑی این جی اوز کے مطابق علاقہ ہی اتنا پسماندہ ہے تو یہاں روایت ہی نہیں کاغذ بنائے جائیں ۔ چلیں مان لیتے ہیں لیکن اگر سرٹیفکیٹ غور سے دیکھا جائے تو جس بھی جلد بازی میں یہ بنایا اس نے گورنمنٹ کے مخف میں جی کے بجائے ڈی لکھ دیا۔ٹائون کی اسپیلنگ بھی غلط ہے ۔پھر بھی پروپیگنڈا اتنا زیادہ تھا کہ صدر ممنون حسین نے شفقت حسین کی پھانسی موخر کرکے اس کی عمر کے تعین کی جانچ کے لیے کہا۔وزیر داخلہ چوہدی نثار نے بھی کہا یہ انسانی جان کا معاملہ ہے اس پر سیاست اور بیان بازی سے گریز کیا جائے۔انہوں نے کہا نہ ہی شفقت کے والد کا کارڈ ملا ناہی والدہ کا، صرف ایک بھائی کا کارڈ ملا جس کی عمر44 سال ہے۔ تاہم ایف آئی اے کی ٹیم نے اس معاملے کی تحقیقات کی اور اس کے نتیجے میں یہ بات عیاں ہوگی کہ شفقت کو جس وقت پولیس نے حراست میں لیا تھا وہ نا بالغ نہیں تھا۔ اس کی عمر23 سال تھی اب کہاں 14 سال اور کہاں 23سال۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے 2014 میں جاری ہونے سرٹیفکیٹ بھی آزاد کشمیر میں متعلقہ حکام نے کینسل کردیا ہے۔کیونکہ اس میں فراہم کردہ معلومات درست نہیں تھیں۔اس کے ساتھ ساتھ دس سال اس مقدمے میں مجرم کے وکیل منصور الحق نے کبھی عمر کا معاملہ عدالت میں نہیں اٹھایا۔ تو اچانک سے این جی اوز نے کس کے ایما پر یہ معاملہ اٹھایا اور پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا۔اس کے پیچھے کیا مقصد تھا کیا کچھ این جی اوزملک میں پھانسی کر سزا دوبارہ سے بحال ہونے پر خوش نہیں تھیں یا اس بات پر فنڈ مہیا ہویے تھے کی شفقت کو بنیاد بنا کر اکیسویں ترمیم کو متنازع بنایا جائے۔

رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگر جرم کے وقت شفقت کی عمر ساڑھے بارہ سال تھی تو جس جگہ وہ ملازمت کررہا تھا کیا اسے تین سال پہلے نو سال کی عمر میں چوکیدار کی نوکری دے دی گی تھی کیا ایسا ممکن ہے کوئی نو سال کے بچے کو چوکیدار کی نوکری پر رکھے گا۔شفقت کو جس وقت نوکری پر رکھا گیا تو وہ بالغ تھا ۔اس کے ساتھ1994 میں اسکول کے ریکارڈ کے مطابق شفقت حسین کلاس فور میں تھا اب کیسے ممکن ہے کوئی1991 میں پیدا ہو اور1994 میں وہ درجہ چہارم میں پہنچ جائے۔رپورٹ کے مطابق شفقت حسین کیس کو بنیاد بنا کر ایسا تاثر دیا کہ پاکستان میں کم عمروں کے لیے انصاف کی کوئی جگہ ہی نہیں لیکن یہ غلط ہے صرف کراچی میں2004 سے لے کر2015 تک867 10 اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے مقدمات کی جیوینائل جسٹس کے تحت کاروائی کی گئی۔

اب جس سال شفقت کو زیرحراست لیا گیا اس ہی سال1455 بچوں کو نو عمر کیلئے نظام انصاف کے تحت کاروائی کا سامنا کرنا پڑا تو شفقت کے ساتھ کسی کی ذاتی دشمنی تو نہیں تھی جو اسکو سزائے موت سنا دی گئی۔پاکستان کی عدلیہ پر سوال اٹھانے والے اس پانچ سال کے بچے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے جس کو شفقت نے لالچ کی وجہ سے مار ڈالا تھا ۔میرا سوال صرف ان این جی اوز اور خود ساختہ مغرب نواز لبرلز سے ہے کیا وہ اب معافی مانگیں گے جس طرح انہوں نے غیر ملکی اخبارات ویب سائٹس پر آرٹیکل لکھ کر ٹوئٹر پر ٹوئٹس کرکے ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام کیا۔سوشل میڈیا پر لوگوں کو گمراہ کیا اور انہیں بھی اپنی مذموم مہم کا حصہ بنایا۔ کیا شفقت کی بچپن کی تصاویر اور جھوٹے برتھ سرٹیفکیٹ بنا کر ملک کو بدنام کیا وہ سب معافی مانگیں گے ؟

ہم سب کو بھی چاہیے بنا تحقیق کیے ہم کسی بھی سوشل میڈیا مہم کا حصہ نا بنیں۔کب کون ڈالرز کی خاطرسوشل میڈیا پر عام عوام کو صرف اپنی جیب بھرنے کی خاطر استعمال کرلے اور بعد میں باضمیر افراد کو اس بات پر پشیمانی ہو کہ ملک کو بدنام کرے والوں نے دھوکہ دے کر استعمال کر ڈالا۔شفقت کا کیسں تو عدالت میں ہے اس کو اور مقتول بچے کا انصاف تو ہم عدالت پر چھوڑتے ہیں۔لیکن کیا حکومت شفقت کو بچانے کے لیے منظم دھوکے پر مشتمل مہم چلانے والوں کے خلاف کاروائی کرے گی۔ان افراد کے خلاف نئے سائبر قانون کے تحت کاروائی ہونی چاہیے جنہوں نے عام پاکستانیوں کو سوشل میڈیا پر بے وقوف بنایا اور پاکستان کو بدنام کیا۔ ایک قاتل کے لیے تو مہم چلائی، اس بچے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے جس کو شفقت نے بے دردی سے قتل کرڈالا۔مظلوم کا ساتھ دیں ظالم کا نہیں اور اگلی بار سوشل میڈیا پر کسی بھی مہم کا حصہ سوچ سمجھ کر بنائے گا 
0

0 comments:

Post a Comment

Popular Novels