Saturday 9 May 2015

Atom song film ki kam yaabi ki zamanat آئٹم سانگ فلم کی کامیابی کی ضمانت ؟


            .......جویریہ صدیق.......


ایک زمانہ ہوتا تھا جب فلم ساز بڑے بڑے ادیبوں سے فلم کا اسکرپٹ لکھواتے تھے اور حب بات آتی تھی فلم میں موسیقی اور شاعری کی تو نامور شاعر وہ بول لکھتے تھے کہ گیت آج بھی زندہ ہیں۔آہستہ آہستہ فلم آرٹ کمرشلزم کی بھینٹ چڑھ گیا اور اب بیشتر فلموں میں نہ ہی اسکرپٹ جاندار ہوتا ہے اور نہ ہی گانوں کی شاعری مسحورکن۔پاکستان میں تو ویسے بھی فلم انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہے،اس کے پیچھے ان ہدایت کاروں اور فنکاروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے جو مرحوم سلطان راہی کے انداز کو کوئی دو سو تین سو فلموں میں کاپی کرگئے۔ جس زمانے میں جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بن رہی ہوں وہاں کون گنڈاسے والی فلم دیکھنے آئے گا۔ ایک ہی جیسے موضوعات سلطان راہی جیسا ہیرو اس کے پچھے نچاتی گاتی ہیروئین تھوڑے غنڈے، ایکشن اور آخر میں ہیرو ہیروئین کی شادی کون ایسی فلم دیکھنے آتا ہے۔

پاکستانی فلم بینوں کی بڑی تعداد بھارتی فلمیں دیکھنے پر مجبور ہے۔ ہندی مووی بگ بجٹ کے ساتھ دنیا کی حسین ترین لوکشنز پر شوٹ کی جاتی ہیں، جاندار موسیقی بڑے بڑے فلمی نام شائقین کو فلم دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بھارت اپنی فلموں سے دنیا بھر میں اپنی ثقافت سے کو اجاگر کر رہاہے۔ پاکستانی سینما مالکان بھی ہندی فلموں کو ہی چلانے پر مجبور ہیں کیونکہ پاکستان میں فلمیں بہت کم تعداد میں بن رہی ہیں ۔سال میں صرف ایک دو ہی ایسی فلمیں آتی ہیں جو پاکستانیوں کو سنیما کی طرف جانے کی مجبورکرتی ہیں۔نوجوان ہدایت کار اور بہت سے اداکار اب فلم انڈسٹری کو سہارا دے رہے ہیں۔شائقین کو سال میں تین، چار اچھی پاکستانی فلمیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔

لیکن نئے ہدایت کار بھی ہندی فلموں سے بہت متاثر نظر آرہے ہیں اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کوئی نہ کوئی آئٹم سانگ ڈال کر فلم میں مصالحہ ڈالا جائے۔ اچھی فلموں سے ضرور متاثر ہو لیکن ہو بہو بھارت کا کلچر اپنی فلموں میں دیکھنا کہاں کا انصاف ہے۔پہلے پاکستانی فلم ساز بارش میں گانا عکس بند کرواتے تھے جس میں ایک فربہ وزن ہیروئین تنگ کپڑے پہنے گانے کے آخر تک کود کود کر اپنا برا حال کرلیتی تھی۔ پر نیے ہدایت کار وہ بارش والا گانا تو نہیں لیکن ایک بار یا کلب میں بالکل ہندی فلم جیسا آئٹم سانگ ضرور ڈالتے ہیں۔جس میں ایک حسینہ چست لباس میں رقص کررہی ہوتی ہے اور بہت سے اس کے دیوانے ولایتی مشروبات لیے اس کو سراہ رہے ہوتے ہیں۔ بھارت میں تو شاید بار کلچر ہو کلبز بھی ہوں گے لیکن پاکستان میں تو ایسا کہیں بھی دیکھنے کونہیں ملتا۔پھر فلم ساز اس کو پاکستان کا کلچر بنا کر کیسے دیکھا سکتے ہیں۔ اگر بھارت کا ہی کلچر دیکھنا ہے تو ہم ان کی فلم میں دیکھ لیں ٹکٹ خرید کر اگر ہم سینما میں پاکستانی فلم دیکھنے جاتے ہیں تو فلم بینوں کا اتنا تو حق ہے کہ انہیں صاف ستھری تفریح ملے۔

بھارت کی فلموں میں آئٹم سونگ کا رواج 2010ءسے بڑھا منی بدنام ہوئی،شیلا کی جوانی، چکنی چمبیلی، بے بی ڈول میں سونے کی، ہلکٹ جوانی، ببلی ہے پیسے والوں کی وغیرہ جیسے گانے تقریباً ہر فلم کا حصہ ہیں۔ جس کی شاعری واہیات ہے۔ان گانوں کی عکس بندی میں بھی اداکارہ کو ایسے ایسے زاویوں سے دکھایا جاتا ہے کہ وہ خواتین اور رقص کی توہین ہے۔ اس طرح کے گانوں میں ہر طرح کی اداکارائیں کام کررہی ہیں جبکہ یہ انہیں سوچنا چاہیے کہ لوگ انہیں ان کی اداکاری پر سراہ سکتے ہیں، بلاوجہ ایکپسوز کرنا قطعی مناسب نہیں۔ کوئی غیر معروف اداکارہ صف اول کی ہیروئین بننے کے لیے آئٹم سانگ کرے تو سمجھ بھی آتا ہے کہ وہ شہرت کی سیڑھیاں چڑھنے کی جلد خواہش مند ہے لیکن جب کترینہ کیف، کرینہ کپور اور پریانکا چوپڑا جیسی صف اوّل کی اداکارائیں آئٹم گرل بن کر آئیں تو یہ ان کی بہترین اداکارنہ کی صلاحیتوں کی توہین ہے۔

خود بھارت میں بہت سی سماجی تنظیمیں ان گانوں پر پابندی کا مطالبہ کررہی ہیں کہ یہ گانے خواتین کی توہین ہیں اور خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں،عام فلم بین کو محسوس ہوتا ہے کہ ہر لڑکی ہی شاید آئٹم گرل جیسی ہے۔ایسا بالکل نہیں ہے، گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین آئٹم گرل نہیں ہیں، وہ بھی پروفیشنل ہیں جو اپنے گھر کے چولھے میں ایندھن ڈالنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ ان گانوں نے عام فلم بین کے دماغ کو آلودہ کردیا ہے۔اب یہ ہی سلسلہ پاکستان کا رخ کر رہا ہے۔فلم میکنگ میں اعلیٰ ڈگری یافتہ ہدایت کار نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی آئٹم سانگ کو فلم کی کامیابی کا لازمی حصہ سمجھ رہے ہیں۔

میں ہوں شاہد آفریدی فلم نے پاکستان بھر میں بہت اچھا بزنس کیا لیکن اس فلم کے گانے بس تیری ہی کمی ہے میں متھیرا اور ماہ نور بلوچ کے آئٹم سانگ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ شاہد آفریدی بھی کہہ اٹھے بزرگ فنکارہ کا گانا فلم میں غیر ضروری ہے۔ بزرگ وہ ما نور کو کہہ رہے تھے لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ ماہ نور جیسی سینئر اداکارہ کیسے آئٹم سنگ کے لیے مان گئی۔اس ہی سال وار مووی بھی ریلیز ہوئی جس میں کوئی آئٹم سانگ نہیں تھا، فلم کی مضبوط کہانی اور اداکاروں کی بہترین پرفارمنس کے باعث اس فلم نے 23کروڑ کا بزنس کیا۔اسی طرح صباء قمر جیسی سینئر اداکارہ بھی مستانی بنی نظر آئیں جو فلم ۸۹۶۸ میں ان پر فلمایا گیا، نہ ہی اس گانے کے بول سننے کے قابل ہیں اور رقص بھی ویسا ہی ہے جیسے کسی بھی آئٹم سانگ میں ہوتا ہے۔صباء قمر جیسی منجھی ہوئی اداکارہ بالکل بھی آئٹم گرل کے لیے موزوں نہیں۔

اس کے بعد مہوش حیات پاکستان کا ایک خوبصورت چہرہ بلی بنے نظر آئی۔نا معلوم افراد فلم میں یہ کہاں کا کلچر دیکھایا گیا ہے جہاں ایک خاتون ایک مجمع میں نچاتی ہے اور کہتی ہے میں ہوں بلی۔اسی سال فلم دختر بھی ریلز ہوئی جس میں بچوں کی شادیوں جیسا حساس موضوع اٹھایا گیا اس میں تو کوئی آئٹم سانگ نہیں تھا پھر بھی فلم نے اچھا بزنس کیا۔ بات ہو اگر جلیبی فلم کی جو اس سال ریلیز ہوئی اس میں ژالے سرحدی آئٹم سانگ میں نظر آئیں۔ شوخ جوانی گانے پر رقص کرتی ژالے کو بھی سب دیکھ کر حیران تھے کہ پاکستانی فلمیں کہاں جارہی ہیں۔ اب ایک اور فلم آرہی ہے کراچی سے لاہور اس کے سب پہلے ٹریلر میں عائشہ عمر جو کہ پاکستان کا پسندیدہ ترین چہرہ ہیں کو چولی اور لہنگے میں دکھایا گیا ہے، ٹریلر صرف ان کی کمر سے شروع ہوکر ان کمر پر ختم ہوجاتا ہے، کیا ہدایت کار کو اپنی صلاحیتوں پر یقین نہیں، کیا وہ یہ سمجھتا ہے سنجیدہ فلم شائقین صرف کمر کو دیکھ کر فلم دیکھنے آئیں گے۔ جب اس فلم کا دوسرا ٹریلر ریلز ہوا تو پتہ چلا کہ اسٹوری بہت اچھی ہے لیکن خاتون کو شو پیس بنا کر پیش کرنا سمجھ سے باہر ہے۔عائشہ عمر نے اداکاری بھی اچھی کی ہوگی ہم وہ دیکھنے کے لیے بھی سینما آسکتے ہیں۔کیونکہ سنجیدہ شایق پاکستان کی فلم انڈسٹری کا عروج چاہتے ہیں۔

پہلے ہی اداکارہ صائمہ، نرگس اور دیدار کے بارش والے گانے ہمارے انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچا چکے ہیں۔کیا اب نئے فلم ساز بھی اسی ڈگر پر چلیں گے جس پر چل کر 1990ءکے اوائل سے لے کر 2005ءتک پاکتسان کی فلم انڈسٹری کو تباہ کردیا۔پاکستان کا کلچر بھارت سے مختلف ہے۔ بھارت میں ہوں گی بار ڈانسرز یا آئٹم گرل لیکن پاکستانی معاشرے میں یہ چیزیں عام نہیں ہیں۔ پاکستان کی اداکاراؤں کو چاہیے وہ اداکاری کے میدان میں اپنے جوہر دکھائیں، آئٹم سانگ سے انکار کریں،آئٹم سانگ کی شاعری اس کا رقص عورت کی تذلیل ہے۔ میں خواتین کے فلموں میں کام کرنے یا رقص کرنے کے خلاف نہیں لیکن اداکارائیں کم ازکم گانے کی شاعری تو سنیں اس کے بعد فیصلہ کریں کہ کیا انہیں اس گانے پر رقص کرنا چاہیے۔جن گانوں کا میں نے تذکر کیا ہے مستانی،بلی،شوخ جوانی وغیرہ وغیرہ کیا ان کا فلم کی کامیابی میں کوئی کردار تھا یا نہیں۔فلم صرف اس لیے ہٹ جاتی ہے اگر اس کی اسٹوری اچھی ہو، اداکاروں نے کردار کو اچھی طرح نبھایا ہو اور فلم کو خوبصورتی سے عکس بند کیا ہو۔

فلمیں بنائیں ان میں گانے بھی ہوں، اچھے رقص بھی ہوں، ہیرو ہیروئین کی اٹھکیلیاں بھی ہوں، بس اس میں عورت کی تذلیل نہ ہو، آئٹم سانگ عورت کی تذلیل ہے، میں ایسے آرٹ نہیں مانتی جس میں عورت کو کم کپڑوں میں غیر مناسب زوایوں سے دکھایا جائے اور ذومعنی الفاظ والے گانوں پر رقص کرایا جائے۔ عورتوں کو فلموں میں مضبوط کردار ملنے چاہئیں تاکہ وہ بھی اپنے فن کا کھل کر مظاہرہ کریں اور اپنی اداکاری کے جوہر سب کو دکھائیں۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری بہت مشکل سے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہورہی ہے آرٹ کے نام پر عورت کے جسم کو نہ بیچیں۔ پاکستانیوں کو صاف ستھری تفریح کی ضرورت ہے ،آئٹم سانگ کے زہر سے انہیںآلودہ نہ کریں۔

اگر پاکستان کی اب تک سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں پر نظر ڈالیں جن میں خدا کے لیے ،بول اور وارمیں کوئی آئٹم سانگ نہیں تھا۔ اس لیے فلم ساز اس بات کو ذہن سے نکال دیں کہ آئٹم سانگ فلم کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ فلم کی کامیابی کے لیے بہترین اسکرپٹ، عمدہ موسیقی، خوبصورت شاعری، جان دار اداکاری اور حسین لوکیشنز کے لوازمات پورے کرنا ضروری ہیں۔ پاکستان کی سینئر اور پسندیدہ اداکاراؤں کو بھی چاہیے کہ چند پیسوں کی خاطر گھٹیا شاعری اور ایکسپوزنگ والے رقص سے پرہیز کریں۔ بھارت تو عورتوں کے خلاف جرائم میں بہت آگے نکل چکا ہے جس کی بڑی وجہ عورت کو عورت کو نمود ونمائش کی چیز کے طور پر پیش کرنا ہے۔ پاکستانیوں کو سوچنا ہوگا کہیں تفریح کے نام پر ہم نوجوان ذہنوں کو آلودہ تو نہیں کررہے۔ سنسر بورڈ اور پیمرا صرف پاکستانی ہی نہیں ان بھارتی آئٹم سانگز پر بھی پابندی لگائے جن کی شاعری یا رقص میں خواتین کی تذلیل نمایاں ہے۔

0 comments:

Post a Comment

Popular Novels