Saturday 9 May 2015

بغاوت یا اصول پر اصرار Bgawat ya asul par israr by Sayed arif mustfai

                            .....سید عارف مصطفیٰ.....
پاکستان کی سیاسی جماعتیں یوں تو ہر وقت جمہوریت جمہوریت کی مالا جپتی دکھائی دیتی ہیں لیکن خود انکے سربراہان اور انکی جماعت کے اندر کتنی جمہوریت اور اصول پسندی موجود ہے یہ ہماری سیاست کا ایک تاریک باب ہے۔ ایک آدھ کو چھوڑ کر ماشاءاللہ سبھی کا حال ایک سا ہی ہے، تبدیلی کے پرچارک اور اصولوں کی ہمہ وقت گردان کرنے والی پی ٹی آئی میں بھی حال ہی میں ایسا ہی کچھ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان نے آمرانہ طور پہ اس ٹریبونل ہی کو فارغ کرڈالا ہے کہ جو انکی پارٹی کے اندرونی ملک گیر الیکشن میں مبینہ دھاندلیوں و بےقاعدگیوں کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے سابق جج محترم وجیہہ الدین احمد کی سرکردگی میں نے خود انہوں نے اور پارٹی کی مجلس عاملہ نے تشکیل دیا تھا۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جسٹس وجیہہ الدین احمد صاحب نے اس انٹرا پارٹی الیکشن ٹریبونل کی تحلیل کو تسلیم کرنے سے جو یکسر انکار کردیا ہے تو اسے مختلف لوگ مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں اور اپنی اپنی سمجھ اور ادھوری معلومات کی بنا پہ اسکی الٹی سیدھی تشریحات کرتے پھر رہے ہیں،، چند لوگوں کی دانست میں یہ کھلی بغاوت ہے اور یہ غلط طور پر کی گئی ،،، چند دوسری سوچ رکھنے والے اس بغاوت کے حق کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اسکی ٹائمنگ کو نامناسب ٹھہراتے ہیں ،،، لیکن یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ محترم وجیہہ الدین احمد ٹریبونل کے سربراہ کی پوزیشن کی نزاکتوں کی وجہ سے خود کھل کر کوئی بھی وضاحت کرنے سے معذور ہیں اور حسب روایت نہایت تدبر و تحمل کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں ۔۔۔ لیکن چند باخبر لوگ جو خاصی حد تک متعلقہ حقائق سے واقف ہیں تو انکا نکتہ نظر بالکل مختلف ہے ۔۔۔ عین مناسب ہے کہ میں قارئین کیلئے یہاں اسکے چیدہ چیدہ نکات پیش کردوں۔
اس نکتہ نظر کے مطابق جسٹس صاحب کی طرف سے ٹریبونل کی تحلیل کے عمرانی فیصلے کو تسلیم نہ کرنا کسی طور کھلی بغاوت نہیں بلکہ یہ انکا اصولوں پہ کھڑے رہنے کا برملا اعلان ہے اور یہ بات سبھی کے علم میں ہے کہ جسٹس صاحب اصولوں پہ کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے،، اگر وہ ایسا کرسکتے تو پرویز مشرف کے عبوری آئین پہ حلف لینےسے اصولی انکار ہی کیوں کرتے ۔۔۔ پھر یہ بھی نہایت اصولی و قانونی بات ہے کہ جس طرح انتظامیہ یعنی حکومت ججوں کا تقرر تو کرسکتی ہے لیکن انہیں برخواست نہیں کرسکتی اسی طرح کوئی تحقیقاتی ٹریبونل یا کمیشن اپنے کام کی تکمیل سے پہلےختم نہیں کیا جاسکتا اور کسی کمیشن یا ٹریبونل نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے یا نہیں اسکا تعین بھی خود وہ ٹریبونل یا کمیشن خود ہی کرسکتا ہے ،،،کوئی دوسرا ایسا کرنے کا مجاذ ہرگز ہرگز نہیں۔
یہ لافانی کلیہ ہے کہ کوئی مخلوق اپنے خالق کو ختم نہیں کرسکتی،،، پارٹی کی مجلس عاملہ سے حاصل اختیارات کی رو سے یہ ٹریبونل پارٹی کے ہر قسم کے عہدے ختم کرسکنے کا مجاذ قرار دیا گیا تھا اور ان اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ٹریبونل نے پہلے پارٹی کے ونگز کے سوا ہر قسم کے تمام عہدے ختم کرنے کا اقدام کیا تھا، پھر واحد عہدیدار یعنی عمران خان کو بطور پارٹی چیئرمین برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا، یوں اب عمران خان کا منصب ٹریبونل کے فیصلے کی تخلیق ہے اور وہ اب اسی کے سبب پارٹی کے چیئرمین ہیں، یوں جسٹس وجیہ الدین والا ٹریبونل انکے عہدے کا خالق بن چکا ہے اورپارٹی چیئرمین اپنے منصب کے خالق کو ختم کرڈالنے کے مجاذ ہی نہیں ہیں ،،، ٹریبونل نے خان کو پارٹی چیئرمین کے عہدے پہ برقرار محض اسلئے رکھا تھا کیونکہ ٹریبونل کے فیصلوں کو نافذ کرنے کیلئے کوئی اتھارٹی موجود رکھی جانی بھی ناگزیر تھی۔
وجیہہ الدین ٹریبونل نے چارج سنبھالتے ہی اپنے سامنے آنے والی 76 انتخابی پٹیشنوں کی باری باری سماعت کی اورانہیں نپٹادیا اور پھر اپنی تحقیقات کی روشنی میں 17 اکتوبر 2014 کو جو فیصلہ دیا تھا اسکی رو سےچیئرمین کے سوا پارٹی کے تمام انتخابی عہدے ختم کرکے 18 مارچ 2015 تک نئے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا حکم دیا گیا تھا یوں مستند ووٹرلسٹوں کی تیاری اور دیگر انتخابی تیاریوں کے لیئے 5 ماہ کا لمبا وقت دیا تھا، اس سے قبل تسنیم نورانی کے تحقیقاتی کمیشن نے بھی ایسی ہی سفارشات مرتب کی تھیں لیکن اسکے مینڈیٹ میں 2013 کے جنرل الیکشن میں ہونے والی پارٹی کی اندرونی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرنا بھی شامل تھی،، جن پہ عمل کرنے کا تکلف ہی نہیں کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس وجیہہ الدین کے فیصلے کی روشنی میں بطور پارٹی چیئرمین عمران خان نے ایڈہاک عہدیدار مقرر کئے تھے اور نیا الیکشن کمیشن بھی مقرر کردیا تھا اور آزادی کنٹینر پہ جاکرمیڈیا کے سامنے اپنی لائیو تقریر میں تمام عہدیداروں کی سبکدوشی، ایڈہاک عہدیداروں کے تقرر اور 18 مارچ تک اندرون پارٹی نئے انتخابات کرانے کا واشگاف اعلان بھی کیا تھا، یوں اس سارے پروسیس کو تسلیم کرنے اور تعمیل کرنے کا برملا عہد کیا جسکے دستاویزی و ویڈیو ثبوت موجود ہیں اسلئے اس پروسیس کی تکمیل کے وہ مکمل پابند ہیں۔ 
مذکورہ ٹریبونل کی جانب سے دیا گیا 5 ماہ کا وقت یونہی بےعملی میں گزار دیا گیا تو ایک بار پھر محترم جسٹس صاحب نے چیئرمین کو مزید 90 روز کی مہلت دی کہ وہ اس سارے عرصے میں انتخابی پروسیس کو مکمل کرلیں اور اسی مدت میں پارٹی انتخابات کا کام پایہ تکمیل کو پہنچائیں تاہم اس بار چیک اینڈ بیلنس کے تحت ان انتخابات کیلئے پہلے اہم مرحلے یعنی حتمی ووٹر لسٹوں کی تیاری کے کام کو مکمل کرنے کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ،،، یہ مہینہ 18 اپریل کو جب مکمل ہوا اور ووٹر لسٹوں کی تیاری کا کام پھر بھی بھی نہیں ہوسکا تو بالآخر جسٹس صاحب نے اپنے منصبی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے 21 اپریل کو چیئرمین عمران خان کو اپنے روبرو طلب کرلیا ،،، لیکن یہ طلبی شاید عمران خان کو اپنی توہین محسوس ہوئی اور وہ ٹریبونل کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور پھر قطعی آمرانہ انداز میں 3 دن بعد 24 اپریل کو انہوں نے اس ٹریبونل ہی کو تحلیل کرنے کا متکبرانہ و غیرقانونی نوٹیفکیشن جاری فرمادیا۔
اوپر بیان کردہ حقائق کے اس مختصر سے خاکے سے یہ افسوسناک حقیقت بخوبی جھلک رہی ہے کہ تحریک انصاف میں اب انصاف کے تصور کو ہی اجنبی بنادیا گیا ہے اور پارٹی سے منسلک وکلاء اور قانون دان بھی اس اقدام پہ انتہائی چیں بہ جبیں ہیں اور خان کے اس غیرقانونی نوٹیفکیشن پہ سخت تنقید کررہے ہیں۔
لیکن چند دیگر حقائق ایسے بھی ہیں کہ جواس اقدام کی اصل وجہ سمجھنے میں بڑی مدد دیتے ہیں،،، بہت لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ عمران خان کو چند مفاد پرست اور انویسٹر ٹائپ کے دولتمند سیاستدانوں نے اپنے چنگل میں جکڑ رکھا ہے اور وہ شفاف پارٹی انتخابات کی تاب نہیں لاسکتے۔ ان میں مشرف کے دور کی کابینہ کے ایک اہم رکن نمایاں ہیں جواپنے جہاز میں پارٹی چیئرمین کو ہر جگہ اڑائے پھرتے ہیں اور ایک طرح سے اپنے جہاز میں انہوں نے پارٹی کو اسکے اصولوں اور چیئرمین سمیت ہائی جیک کرلیا ہے۔ ان جیسے اصحاب نے ہی پارٹی کے پرانے عہدیداروں کی بحالی کا وہ متنازع حکم نامہ بھی جاری کروایا ہے کہ جسکے مطابق اب یہی بدعنوانی کی دیمک کے کھائے ہوئے لوگ جو کارکنان کے ٹھکرائے ہوئے ہیں، ان ہی کو نئے انٹر پارٹی الیکشن کی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئیں ہیں، اس سے ان انتخابات کی شفافیت کا ابھی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور یوں پی ٹی آئی اب کس منہ سے 2013 کے جنرل الیکشن میں عدم شفافیت کے اپنے دعوے کی لاج رکھ پائے گی۔
چونکہ پارٹی چیئرمین کےاس تحلیل والے فیصلے کی حیثیت قطعی غیرقانونی ہے لہٰذا پارٹی کے آئین و قانون کی تمام نزاکتوں اور پیچیدگیوں کو جاننے اور سمجھنے والے جسٹس وجیہ الدین احمد صاحب اس غلط حکمنامے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے ٹریبونل کی تحقیقت کا کام پہلے کی طرح پوری مستعدی سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہنوز متعدد حلقوں سے بے ضابطگیوں کی شکایت کرنے والے انکے سامنے پیش بھی ہورہے ہیں۔
آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ وہ جو ازراہ مذاق کہا جاتا ہے نا کہ عزت تو اللہ دیتا ہے لیکن ذلت کا انتظام بندہ خود کرتا ہے تو لگتا ہے کہ اب عمران خان شاید اس ہی روش پہ چل نکلے ہیں،، بہتر ہے کہ وہ اس رستے پہ اپنےتیزی سے بڑھتے قدم روک لیں کیونکہ وہ ملک میں مثبت تبدیلیوں کے داعی ہیں اور جس انصاف کا علم لے کر نکلے ہیں تو اگر اس میں سے انصاف والا جھنڈا ہی نکل گیا تو انکے پاس رہ کیا جائے گا،،،فقط ڈنڈا،،، اور ڈنڈا تو صرف بےانصافی کی علامت ہے نا،، اسکا انصاف کے نام لیواؤں کے پاس کیا کام۔ 

0 comments:

Post a Comment

Popular Novels