Saturday 9 May 2015

این اے246میں سیاسی سرگرمیاں NA 246 main siasi sargarmian


.....فرخ نور قریشی.....
ملک بھر اور خصوصاً کراچی کے شہری اس وقت ایسے thrilled ہیں جیسے کسی ورلڈ کپ میں انڈیا پاکستان کا میچ ہونے جارہا ہو۔

عمران خان کی روایتی کپتانی کی جھلک ہمیں NA 246 کی انتخابی مہم میں بھی نظر آتی ہے۔ پتا ہے کہ میچ جیتنا تقریباً ناممکن ہے لیکن ایڑی چوٹی کا زور نہ صرف کپتان لگا رہا ہے بلکہ کپتان کی ٹیم بھی۔ پی ٹی آئی کے جیتنے کا سوال ابھی اتنا اہم نہیں جتنا کہ یہ سوال کہ رینجرز کی موجودگی میں جہاں انتخابی عمل پر ملک بھر کے میڈیا کی خصوصی نظر ہوگی اور جہاں خاصی امید ہے کہ ووٹنگ بغیر کسی دھاندلی کے نتیجے میں ہو جائے گی ، نتائج کیا ٹھہریں گے؟ 

2013 کے انتخابات میں اسی حلقے سے متحدہ کے امیدوار تقریباً ایک لاکھ ووٹوں کے مارجن سے کامیاب ہوئے تھے۔ یہ مارجن یا اکثریت متحدہ کے لئے ایک threshold یا یوں کہئے کہ ایک زیادہ سے زیادہ حد قرار دی جاسکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سیاسی حالات میں جب متحدہ زیر اعتاب ہے اور اس بار نہ صرف اسے ممکنہ طور پر شفافیت کا بھی سامنا ہوگا بلکہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے ممکنہ مشترکہ امیدوار کا مقابلہ بھی کرنا پڑسکتا ہے، ایسے میں ایک لاکھ ووٹوں کا یہ threshold کتنا گرے گا؟ اصل الیکشن ہی یہ ہے۔ اگر یہ برتری ایک لاکھ سے کم ہوکر پچاس ہزار یا اس سے کم پہ آجائےایم کیوایم کیلئےلمحہ ففکریہ ہوگی۔

ویسے ہم عادی ہوچکے ہیں ان ہی نتائج کو سوچنے اور تجزیہ کرنے کے جو ہم تقریباً پچھلے تیس سالوں سے دیکھتے آئے ہیں۔۔۔اور وہ یہ ہے کہ کراچی کے 80 سے 90 فیصد حلقوں میں متحدہ کامیاب ہوتی آئی ہے۔ لہٰذا ہماری سوچ بھی اس تاثر یا چھاپ کی کشش سقل نہیں توڑ پاتی۔

وقت اور حالات بدلتے رہتے ہیں اور جو حالات آج ہیں وہ آج سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ متحدہ پر بلاشبہ اس سے پہلے بھی کم و بیش دو بار اسی طرح کا کڑا وقت آیا۔۔۔لیکن متحدہ اسے جھیل گئی۔ کچھ لوگ شاید اب بھی اسی خیال میں ہیں کہ اس طرح کے حالات متحدہ کے لئے نئے نہیں ہیں۔ لیکن ایک چیز واقعتاً نئی ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا ، اور وہ ہے تحریک انصاف کی کراچی میں سیاسی موجودگی۔

اب سے پہلے گذشتہ دہائیوں میں جب بھی متحدہ پہ کڑا وقت آیا تو متحدہ اسے محض اس لئے جھیل گئی کیونکہ کراچی میں بسنے والے اردو اسپیکرز کے پاس متحدہ کے سوا کوئی اور سیاسی آپشن نہیں ہوا کرتا تھا۔کراچی میں کوئی ایسی جماعت نہیں تھی جو ورکنگ کلاس اورمذہبی طور پر معتدل لوگوں کی صحیح معنوں میں ترجمان ہو۔ جماعت اسلامی کا سخت مذہبی نظریہ اور پیپلز پارٹی کی وڈیرا شاہی ، دونوں ہی کراچی کی ایک بہت بڑی ورکنگ کلاس آبادی کے لیئے غیر پرکشش تھے۔ ان کے نظریئے کی حقیقی ترجمان متحدہ ہی تھی جومذہبی طور پر معتدل ہونے کے ساتھ ساتھ میرٹ کی بات کرتی اور وڈیرا شاہی یا جاگیردارانہ کلچر کے خاتمے کے حق میںتھی ، لہٰذا ماضی میں کوئی بھی جماعت متحدہ کے خلاء کو پر کرنے میں ناکام ہی رہی ۔ اور شاید متحدہ کی لیڈرشپ کے ذہنوں میں یہ بات محفوظ تھی کی کراچی کی سیاسی dynamics میں متحدہ کا نظریہ رکھنے والی کوئی اور سیاسی جماعت کا وجود ممکن ہی نہیں۔ 

متحدہ کیلئے مشکل وقت ایک بار پھر آیا ہے لیکن اس بار ایک ایسی جدت کے ساتھ آیا ہے جو متحدہ کے خلاء کو پر کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ تحریک انصاف اور متحدہ کا سیاسی نظریہ اور مؤقف ایک ہی ہے یعنی میرٹ کی بالادستی، وی آئی پی اور وڈیرا کلچر کا خاتمہ وغیرہ وغیرہ، اور دونوں ہی ورکنگ کلاس کے لوگوں کی ترجمان ہیں۔ ایسے میں کرچی کی سیاست میں متحدہ کا تحریک انصاف سے بہتر متبادل اور کیا ہوسکتا ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کی حلقہ NA 246 میں جیت کے امکان کو خارج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 

اس وقت حلقے میں ایک سیاسی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔شدید الزامات اور تنقید کے بعد اچانک پیارومحبت اور بھائی چارے کی پالیسی۔۔۔ایک عجیب سی سیاسی کھچڑی۔

NA 246 میں سیاسی سرگرمی ، عدم برداشت اور تشدد سے شروع ہو ئی جب تحریک انصاف کے سیاسی کیمپ کو اکھاڑا گیا۔ایسے میں تحریک انصاف اسمبلی میں واپس جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔

اوراب ہر ٹی وی پہ آنے والا ہر ٹاک شو اکھاڑا بن گیا۔عمران خان کی کراچی آمد پر یوں تو خبریں گرم تھیں کے NA 246 کے حلقے میں تمام ٹماٹر اور انڈے یکایک بک گئے لیکن رات گئے الطاف بھائی نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ عمران خان بھابی جان کے ہمراہ 90 پر تشریف لائیں ، ان پر انڈے اور ٹماٹروں کی بجائے پھول نچھاور کئے جائیں گے اور تحفوں کے ساتھ رخصت کیا جائے گا۔ الطاف حسین عمران خان کو اپنا بھائی اور پورا مہاجر سمجھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس عمل کے بعد امید کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے بھی نیک تمناؤں کا اظہار ہوگا۔۔۔ اور اگر نہ ہوا تو سمجھا جائے گا کہ تحریک انصاف ہی دراصل محاذ آرائی کی سیاست چاہتی ہے۔

لیکن قبل اسکے کہ تحریک انصاف متحدہ کی لیڈرشپ کے اس دوستی اور ہم آہنگی کے پیغام پر کوئی واضح قدم اٹھاتی متحدہ اور تحریک انصاف کے کارکن عمران خان کی جناح گراؤنڈ آمد کے بعد آپس میں الجھ پڑے۔ ہم آہنگی، دوستی اور تلخی کی مصلحانہ پالیسی تو الیکشن کے دن تک بہ وقت ضرورت چلتی رہے گی، لیکن سیاسی طور پر دیکھا جائے تو متحدہ کی پالیسی یہی ہوگی کہ کم از کم لیڈرشپ کی سطح تک ہم آہنگی اور دوستانہ ماحول رکھا جائے ۔۔۔ لیکن کیا یہ دوستی اور ہم آہنگی کی ہوا تحریک انصاف کی سیاسی مہم کے لئے وبا ل تو نہیں بن جائے گی؟ 

اس وقت تحریک انصاف کا ووٹر وہ ہے جو بیشک متحدہ کے سیاسی نظریئے کے ساتھ مطابقت تو رکھتا ہے لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں اور قریب تین دہائیوں کے ذاتی تجربے کی بناء پر متحدہ سے بدظن ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست اور جیت کا دارومدار ایسے ہی ووٹرز کو mobilize کرنے پر ہے اور ایسا ووٹر قطعی طور پر تحریک انصاف کا متحدہ کے ساتھ بھائی بھائی والے رویے سے تو اجاگر یا mobilize ہوگا نہیں، بلکہ خاموش ہو کرکسی کو ووٹ نہیں ڈالے گا۔ NA 246 کا یہ مقابلہ دراصل متحدہ اور اینٹی متحدہ ووٹرز کے درمیان ہے۔ اور اینٹی متحدہ ووٹرز جنہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنا ہے، فطری طور پر تحریک انصاف کا متحدہ کی طرف ایک سخت stance کے بعد مروتاً نرم پڑ جانے کو قبول نہیں کرینگے۔ دوسری طرف اتحادی جماعت اسلامی ہے، جس کے ساتھ اس وقت تک یہ طے پانا ہے کہ الیکشن کس کے امیدوار نے لڑنا ہے۔ ظاہر ہے کہ تحریک انصاف یہ چاہے گی کہ انتخاب عمران اسماعیل ہی لڑیں ۔۔۔لیکن متحدہ کے ساتھ دوستانہ رویہ اس اتحاد کو امتحان میں ڈال سکتا ہے اور جماعت اسلامی جو گذشتہ تین دہائیوں سے متحدہ کی حریف رہی ہے اس بات پر بضد ہوسکتی ہے کہ الیکشن انہی کا امیدوار لڑے گا کیونکہ تحریک انصاف متحدہ کو دل دے چکی ہے اور اس بات کو لیکر جماعت کے ووٹرز نالاں ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف ان تمام factors کی موجودگی میں کیا پالیسی اپناتی ہے۔ 

0 comments:

Post a Comment

Popular Novels