Saturday 9 May 2015

تحریک انصاف کی پارلیمنٹ میں واپسی !! Tehrik e insaf ki parliament me wapsi


.....جویریہ صدیق.....

پی ٹی آئی نے سات ماہ سے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کررکھا تھا،126دن تک طویل دھرنا دیا ۔ہر روز پارلیمنٹ کے سامنے پارلیمنٹ کو جعلی اور بوگس قرار دیا جاتا رہا،کبھی ایمپائر کی انگلی ، کبھی اوئے اوئےتو کبھی استعفے ، کبھی دھواں دار تقاریر ، تو کبھی سول نافرمانی کی کال تو کبھی الزامات کی بوچھاڑ تو کبھی چار حلقے،تحریک انصاف نے تمام ہی جماعتوں کے قائدین کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔پھر بھی حکومت اور دیگر جماعتیں روٹھے ہوئوں کو منانے میں لگی رہیں اور یہ کفر 6اپریل کو ٹوٹا جب یمن کی صورتحال کے لیے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی ٹی آئی نے واپس اسمبلی میں آنے کا فیصلہ کرلیا۔خوش و خرم پی ٹی آئی کے ارکان جس وقت اسمبلی میں داخل ہوئے تو ایم کیو ایم ،جمعیت علمائے اسلام ف ، اے این پی اور مسلم لیگ ن کے ارکان نے خوب احتجاج کیا اور یہ سوال اٹھایا کہ تحریک انصاف کے ارکان کس حیثیت میں اسمبلی میں واپس آئے ہیں۔ظاہر سی بات سات ماہ تحریک انصاف نے بھی تو کم نشتر نا برسائے تھے ان سب جماعتوں پر اس ہی لیے اراکین اسمبلی نے موقع اچھا جانا اور اسمبلی ہال’’ گو عمران گو‘‘،پی ٹی آئی یو ٹرن لے کر آئی، معافی مانگو کے نعروں سے گونج اٹھا۔

اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی بار بار درخواست کے بعد کچھ دیر تو ایوان میں خاموشی تو ہوئی لیکن پہلا سیشن یمن کے بجائے پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفوں پر بحث کی نظر ہوگیا۔ ایم کیوایم کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے کہا کہ پارلیمنٹ کا آج کا اجلاس غیر قانونی ہے جو رکن چالیس دن تک غیر حاضر رہے وہ مستعفی ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل کی شق 64 ون اور ٹو واضح ہے اس لیے تحریک انصاف کو واپس آنے کی اجازت دینا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ایوان کے باہر ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ استعفے تین طلاقوں کی طرح ہے اس لیے نامحرموں کا اسمبلی میں کیا کام۔

اے این پی نے بھی تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا اور سینٹر زاہد خان نے کہا عمران خان کو یہ معلوم ہی نہیں کے وہ کیا کررہے ہیں اب ان کے پاس کیاجواز ہے اس اسمبلی میں آنے کا، جس اسمبلی کو وہ جعلی اور بوگس قرار دے چکے ہیں، تاہم اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے معاملے کو رفع دفع کرواتے ہوئے کہا کہ لڑائی کو لڑائی نہیں بلکہ بات چیت سے ختم کیا جائے۔تحریک انصاف کا واپس پارلیمنٹ آنا خوش آئند ہے۔ جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے بھی خوب پی ٹی آئی کی کلاس لی اور کہا کہ آج پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ کو ایوان میں اجنبی تصور کیا جائے، آئین کے تحت استعفیٰ دینے والے خود بخود مستعفی ہوجاتے ہیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی جب ایوان کا ماحول گرم دیکھا تو وہ بھی یمن کو بھول کر پی ٹی آئی کی کلاس لینے لگے اور کہا اسمبلیوں کو جعلی کہنے والے آج کس منہ کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا پی ٹی آئی والے شرم کریں اور حیا کریں،تاہم بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا حکومت خود پی ٹی آئی کو ایوان میں لائی ہے تو اب احتجاج کیوں ؟ حکومت کا لہجہ تلخ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سب صورتحال کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت وزیر دفاع اور ایم کیو ایم کو خوب کھر ی کھری سنائیں اور کہا جوڈیشل کمیشن اصولی موقف تھا اور الیکشن میں دھاندلی ہوئی میں اب بھی اپنے موقف پر قائم ہوں ۔انہوں نے کہا کہ کیا میاں نوازشریف کو پتہ نہیں تھا کہ ان کے وزیر نے کیا بولنا ہے، ان کی موجودگی میں وزیر نے کس طرح کی زبان استعمال کی ایسی زبان تو کوئی تلنگا بھی نہیں استعمال کرتا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کے ہم پارلیمنٹ قومی معاملات پر بات کرنے آئے ہیں جبکہ وزیر دفاع نے ذاتی معاملات کو ترجیح دی۔

تاہم اس تمام کشیدہ صورتحال میں اسپیکر نے صورتحال کو بخوبی سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے انہوں نے رولنگ دی کے تحریک انصاف کی پارلیمنٹ واپسی آئین کی خلاف ورزی نہیں آئین کی شق64 کے ساتھ سپریم کورٹ کا آڈر بھی پڑھا جائے۔سپریم کورٹ کے مطابق اسپیکر فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ کون مستعفی ہورہا ہے اور کون نہیں ۔ ایاز صادق نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے کوئی بھی اپنے استعفے کی تصدیق کے لیے نہیں آیا اس لیے استعفے منظور نہیں ہوئےلیکن جاوید ہاشمی اپنے استعفے کی تصدیق خود کرواگئے جو منظور ہوگیا تھا۔

استعفوں کا معاملہ اسمبلی کے فلور اور گیٹ نمبر ون تک محدود نہیں رہا بلکہ ن لیگ کے رہنما سید ظفر علی شاہ نے تحریک انصاف کے ارکان کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ ظفر علی شاہ نے اس درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان سات ماہ قبل استعفا دے چکے ہیں اور آئین کی شق چونسٹھ ون اے اور ٹو اے کے مطابق جو رکن رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دے اور چالیس دن مستقل غیر حاضر رہے تو اس کے بعد نشت خالی قرار دے دی جاتی ہے ۔ظفر علی شاہ نے کہا مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ سات مہینے تک بھی اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق ان استعفوں کی تصدیق نا کرسکے حالانکہ استعفے رضاکارانہ طور پر دئیے گئے تھے، یہ بات پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ ان کے مطابق تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی میں بیٹھنے کا آئینی جواز کھو چکے ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر شعیب رازق نے کہا یہ معاملہ اسپیکر اور ارکان کے درمیان تھا ارکان نے استعفیٰ دیا اور اسپیکر نے قبول نہیں کیا اس لیے اب جوڈیشل کے قیام کے بعد تحریک انصاف کا حق ہے کہ وہ اسمبلی واپس جاسکتے ہیں کیونکہ ان کے استعفے قبول نہیں کئے گئے۔

اگر پہلے ہی پی ٹی آئی جمہوری دائرے سے باہر نا جاتی تو آج پارلیمان واپسی پر مشکل اور خفت کا سامنا نا کرنا پڑتا مسائل کا حل اگر سڑکوں کے بجائے ایوان میں مذاکرات اور قانون سازی کرکے نکالا جاتا توآج ایوان میں اجنبیت کا احساس نا ہوتا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حالات کس طرف کروٹ لیتے ہیں اور استعفوں کا معاملہ کہاں تک جائے گا اور تحریک انصاف کتنی سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو طے کرتی ہے۔گرجنے برسنے سے کچھ حاصل نہیںہوگا، معاملات کا حل صرف افہام و تفیہم سے ہی نکل سکتا ہے۔اب بہت ہوئے پرانے گلے شکوے کچھ مستقبل کی طرف پر بھی پیش قدمی ہو۔ 

0 comments:

Post a Comment

Popular Novels